ایسا ہو اگر
دن بھر انگلیاں بولتی ہیں
اور آنکھیں سنتی ہیں
ایک فٹ کی سکرین پر
بنتے بگڑتے نقطوں کی بکواس
کان کی بورڈ کی ٹھک ٹھک کے اتنے عادی ہو چکے ہیں
کے اب دل کی دھک دھک بھی سنائی نہیں دیتی
لفظ بولتے ہیں
پر وہ نہیں بولتے جو دل کہنا چاہتا ہے
صرف پیٹ کی گردان میں گم رہتے ہیں
ایسا ہو اگر
کے لفظ وہ سب کچھ کہیں جو دل میں ہے
کان وہ سب کچھ سنیں جو وہ سننا چاہتے ہیں
آنکھیں ان کو دیکھیں جو دل میں بستے ہیں
اور “اپنے ہونے کا احساس ” صرف ذھن پر چڑھ کر
ناچتی خوشی کا ناچ دیکھنے میں مصروف رہے
تو پھر کیوں نا مست قلندر کا نعرہ سن کر
اپنے آپ ہی پیر بیتاب ہو کر دھول کی تھاپ پر ناچیں
اور سوچیں انگلیوں سے باہر بھاگنے کے بجایے
باہر سے آنے والی نت نئی سوچوں
اور اجنبی خوشیوں کی خاطر میں زندگی گزاریں
ایسا ہو اگر


2 Comments
Jibran Hassan
Wahhh …. Sachai to yehi hai … Wahhhhh
Adee
Aesa ho hi na jaaye 🙂