دھوئیں میں تجھ کو ڈھونڈتے رہنے کی عادت هو گئی تھی
دھوئیں میں تجھ کو ڈھونڈتے رہنے کی عادت هو گئی تھی
میں جلتا تھا اس لئے، مجھے بجھنے کی عادت هو گئی تھی
خیالوں کے اس نگر کی، وہ اونچی سی چوٹی
میری سانسوں میں، جینے کی کہاوت ہو گئی تھی
اندھیرا تھا ، مگر پھر بھی روشنی سے بڑھ کر تھا
نہ کچھ دکھتا تھا ، مگر مجھ کو محبّت ھو گئی تھی
کہانی لکھنے والے ، سمجھتے تھے کے انجام ممکن ہے
کہانی جینے والوں پر ، ہر ایک لمحہ قیامت ھو گئی تھی
زمانوں سے نکلےتنہا ستاروں کا کہنا تھاکے ‘دوری’ سے
فلک کا حسن قائم رکھنے کی ، ہدایت ھو گئی تھی
میں، تنہا تھا ، تو، تنہا تھا، مگر اس سے بھی پہلے
کہیں پر کسی کے آنے کی ، شہادت ھو گئی تھی
آخر شب کے بعد آتی، وہ انجانی صبح، اور پھر اندھیرا
ہمارے عشق میں جینے اور مرنے کی روایت ہو گئی تھی

