#FreeVerse

لفظ سوچتے ھیں

لفظ سوچتے ھیں

لفظ ﺧﻮﺍﮨشوں کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے تھک چکے ہیں

چپ بیٹھے ھیں،اب کچھ نھیں کہتے

کچی سوچیں کب سے ابل رہی ہیں

پکنے کا نام ھی نہیں لیتیں

جزبے بھرتے بھرتے زندگی کے غبارے کو پھاڑنے کے قریب ہیں

پھر بھی،ہمارے اندر کا بچہ

ان سب سے بے پروہ

خداؤں والے خواب دیکھنے میں گم رھتا ھے

لفظ سوچتے ھیں

سوچوں کے جزبات بےقابو ھیں

جزبے لفظوں سے بےدل ھو چکے ھیں

پر خواھش جانے کس کے انتظار میں زندہ ھے

اگر ایک پل کو،

ان خواھشوں کا بوجھ ھٹے

سوچیں پک کر منطقی انجام کو پہنچیں

جزبے ھواؤں میں اُڑیں

تو شاید ھمارے اندر کا بچہ بھی

خداؤں کے خوابوں کو چھوڑ کر

انسانوں کی دنیا میں آ بسے

لفظ پھر سے تروتازہ ھو کر

گھوڑوں کی طرح بھاگیں

سوچیں گیت بن کر لفظوں پر ناچیں

اور جزبے زندگی کو اس وادی تک لے جا سکیں

جہاں خوشی کا احساس کب سے ھمارا منتظر ھے

One Comment

  • Anonymous

    you are so artistic, i know some feelings and thoughts are hard to put in words, but seems like your poem does a good job in that. Also, i like how your peom ends with hope, it's like the hope never dies in you…

    🙂
    S